گوگل نے مصنوعی ذہانت کو گذشتہ سال کاربن آلودگی میں مسلسل اضافے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے، جس سے 2030 تک کاربن کے نیٹ زیرو اخراج کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے سرچ انجن کے عزم کو دھچکا لگا تھا۔ گوگل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تسلیم کیا کہ ’2030 تک کاربن کا نیٹ زیرو اخراج تک پہنچنا ایک انتہائی پرعزم ہدف ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ آسان نہیں ہو گا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہماری حکمت عملی میں بہتری جاری رہے گی اور ہمیں اہم غیر یقینی صورت حال کو بھانپنے کی ضرورت ہو گی، جس میں مصنوعی ذہانت کے مستقبل کے ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال بھی شامل ہے، جس کی پیش گوئی کرنا پیچیدہ اور مشکل ہے۔‘
سرچ انجن اور گوگل ورک سپیس جیسے بنیادی پروڈکٹس کے اوور ہال کے لیے مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والی کمپنی نے 2022 اور 2023 کے درمیان کاربن کے اخراج میں 13 فیصد اضافہ دیکھا جو 2019 کے اس کے بنیادی سال کے مقابلے میں 48 فیصد اضافہ تھا۔
مزید پڑھیں: توانائی ذخیرہ کرنے والا سیمنٹ تیاری کے مراحل میں!
گوگل کی رپورٹ کے مطابق اس کے ڈیٹا سینٹرز اپنی حریف کمپنیوں کے مقابلے میں 1.8 گنا زیادہ توانائی کی بچت کی حامل ہیں اور کمپنی نے توانائی کے موثر ٹرانزٹ روٹنگ اور انتہائی سخت موسم کی ماڈلنگ جیسے ماحولیاتی حل کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے کے امکان پر زور دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مصنوعی ذہانت آب و ہوا میں بہتری کے لیے انتہائی اہم ہو سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت 2030 تک گلوبل گرین ہاؤس گیس کے پانچ سے 10 فیصد اخراج کو کم کرنے میں مدد دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ گوگل کی ہم پلہ کمپنیاں بھی اپنے کاربن اخراج کو روکنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ مائیکروسافٹ کی طرف سے مئی میں انکشاف کیا تھا کہ کمپنی کے کاربن کے اخراج میں 2020 سے 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایمازون، جس نے اپنے 23-2022 کے اعداد و شمار ظاہر نہیں کیے، نے کہا کہ 2021 اور 2022 کے درمیان کاربن اخراج میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے حالانکہ یہ اخراج 2019 سے اب تک مجموعی طور پر تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔ توانائی کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی توانائی کے گرڈ اور آب و ہوا پر دباؤ ڈالے گی۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق عالمی ڈیٹا سینٹر کی بجلی کی طلب 2022 اور 2026 کے درمیان دوگنی ہو جائے گی۔ آئی ای اے کے مطابق امریکہ میں اسی مدت میں ڈیٹا سینٹر کے بجلی کے استعمال میں 50 فیصد اضافہ ہوگا۔
کارنیل یونیورسٹی میں انرجی انجینیئرنگ کے پروفیسر فینگکی یو نے اے بی سی نیوز کو بتایا: ’ترقی کا رجحان انتہائی تیز ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں، میں فکر مند ہوں۔‘