پاکستان کا غریب تو وڑ گیا
یکم جولائی 2024 سے نافذ ہونے والا پاکستان کا بجٹ معاشی ماہرین اور عوام کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے
پاکستان کا غریب تو وڑ گیا
محمد ناصر بٹ
یکم جولائی 2024 سے نافذ ہونے والا پاکستان کا بجٹ معاشی ماہرین اور عوام کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ بجٹ کے نفاذ کے بعد سے عوام کو مہنگائی کے نئے اور شدید جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کے باعث اسے غریبوں کے لیے ایک مہلک فریم قرار دیا جا رہا ہے۔
بجٹ کے تحت امیروں کو مراعات دینے کے بجائے، حکومت نے غریب عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جس میں صدر مملکت، وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، اور انہیں مختلف قسم کے ٹیکسوں کے تحت دباؤ میں رکھا گیا ہے۔
مہنگائی کی حالیہ لہر میں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پٹرول کی قیمت بھی دو بار بڑھ چکی ہے، جس کے اثرات ہر قسم کی بنیادی ضروریات پر محسوس ہو رہے ہیں۔ آٹا، دالیں، چاول، گوشت اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اور ڈبل روٹی، شیرمال، اور بچوں کے دودھ پر بھی نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
ٹیکسوں کی بھرمار:
تنخواہ دار طبقے پر مختلف نئے ٹیکسوں کی صورت میں بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ ان ٹیکسوں میں بنیادی ضروریات کی اشیاء شامل ہیں جن پر پہلے ہی اضافہ ہو چکا تھا، جیسے کہ آٹا، چاول، دالیں، اور گوشت۔
اس کے ساتھ ہی، ڈبل روٹی، شیرمال، اور شیر خوار بچوں کے ڈبہ بند دودھ پر بھی 18 فیصد جی ایس ٹی عائد کر دیا گیا ہے۔
ادویات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جس سے صحت کے شعبے پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اسٹیشنری پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے، جو تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔
بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ:
بجلی، گیس، اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں دو بار اضافہ ہو چکا ہے، جس نے مجموعی مہنگائی میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات عام لوگوں کی زندگی پر براہ راست مرتب ہوئے ہیں۔
حکومتی اخراجات میں اضافہ:
بجٹ میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلیٰ، اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات میں 24 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جسے عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے حکومتی اشرافیہ کی سہولتوں میں اضافہ سمجھا جا رہا ہے۔
اراکین پارلیمنٹ کے سفری الاؤنس میں اضافہ، فضائی ٹکٹس کی تعداد میں اضافہ اور دیگر مراعات فراہم کی گئی ہیں، جو خزانے پر بوجھ ڈالتی ہیں لیکن ان پر IMF کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آیا۔
کم از کم ماہانہ اجرت میں اضافہ:
کم از کم ماہانہ اجرت کو 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، جو کہ آج کی مہنگائی کے پیش نظر کافی نہیں ہے۔
سیاسی رہنماؤں کی تنقید اور منظوری:
بجٹ پر پنجاب کے وزیراعلیٰ اور دیگر اتحادی جماعتوں نے تنقید کی اور اسے عوام دشمن قرار دیا۔ باوجود اس کے، بجٹ کی حتمی منظوری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بجٹ کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا، مگر انہیں منظوری کے وقت کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔
غریب عوام کی حالت:
غریب طبقے کو بجٹ کے بعد روزمرہ کی ضروریات کی اشیاء کے لیے اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بجٹ ان کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہا ہے، اور ان کی حالت مزید بگڑ رہی ہے۔
مہنگائی کے اس بھاری بوجھ کے ساتھ، غریب طبقہ معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے، جس کے باعث ان کی زندگی میں مشکلات اور پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔
پاکستان کے 2024 بجٹ نے غربت کے مارے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔ اس بجٹ میں امیروں اور اشرافیہ کے لیے مراعات فراہم کی گئی ہیں، جبکہ غریبوں پر اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ حکومتی اخراجات میں اضافہ اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس صورت حال کا حل نکالتی ہے یا عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔