مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ کہ جب ہم سے بچپن میں پوچھا جاتا کہ اسلام کے کتنے ارکان ہیں تو ہم جواب دیتے کہ چھ یعنی ،توحید ورسالت،نماز ،روزہ ،زکوة، حج اور جہاد۔ہمیں یہ بتایا جاتا کہ پہلے پانچ ارکان اسلام کی بنیادیں ہیں اور جہاد ان ارکان کی چھت ہے ان پر اس کا مضبوط سایہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے بعد کے آنے والی نسلوں نے اپنے سکولوں میں یہ لفظ سنا بھی نہیں آج ہم پرائمری یا مڈل کے کسی طالب علم کو پوچھیں تو شائد انہیں یہ لفط ہی انجان لگے۔
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاد جس کا چودہ سو سال پہلے نزول ہی اس لیے ہوا کہ مظلوم کو ظالم کی شرسے پناہ دی جائے ۔وہ مظلوم خواہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو میں یہ بات اس لیے کہہ رہی ہو ں کہ تاریخ میں ترکوں اور خلیفہ راشدین نے کئی معرکے اس لیے بھی لڑے کہ وہاں عیسائیوں پر ظلم روا رکھے گئے انہیں امن اور پناہ میسر نہ تھی جس بناء پر کئی معرکوں میں پھر غیر مسلموں نے بھی مسلم اُمت کا ساتھ دیا۔آج انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والی تنظیموں کو دیکھ کر دکھ ہو تا ہے کہ کتنی ہی جنگیں ہوئی ہیں اور ان میں ان عالمی حقوق کے علمبرداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کیا کردار رہا ہے۔ کیا اُنہوں نے ظالم کے ظلم کو روکنے کے لئے کوئی سخت اقداات اُٹھائے؟ نہیں ۔یہ ادارے بھی ہمیشہ جانبدار ہی نظر آئے جیسے آج فلسطین کے معاملے پر ہیں ۔کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکا ،کیا برما میں مسلمانوں کی نسل کشی ختم کروائی ،کیا یمن ،لیبا عراق اور افغانستان پر بمباری ختم کرا سکے ۔نہیں
جہاد جو ایک آواز ہے مظلوم کی ،جہاد جو ایک جنگ ہے مظلوم کے حق کےلیے جہاد جو ایک تحریک ہے انسانی حقو ق کے لیے جہاد جو واحد حل ہے ظالم اور ظلم کے خاتمے کا یہ انسانیت اور انسانی حقوق کی بحالی کا ایک خوبصورت ایمانی جذبہ ہے جس کا مقصد اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہے جس کا مقصد اس دنیا کو ظلم وزیادتی سے پاک کرنا ہے ۔جس کا مقصد انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا ہے۔ حضرت عمر ؑ کے دور میں مصر کے ایک والی نے غیر مسلم پر ظلم و زیادتی کی آپ نے اس بندے کو اس غیر مسلم کے ہاتھوںہی سزاء دلوائی اور تاریخی جملہ بولا جو بعد میں کئی انقلاب پرست لوگوں نے اپنایا ۔ ”ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے تم نے انہیں کب سے غلام بنا لیا ہے”۔ اُس وقت نہ اقوام متحدہ تھا نہ کوئی اور عالمی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور اب ان کے ہوتے ہوئے جو انسانت کا حال ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں جب پرتگال کے چرچ کی بنیاد مسلمانوں کے ڈھانچوں پر رکھی جارہی تھی ایسے اداروں کا کردار کیارہا ؟۔جب مراکش اور ہسپانیہ میں مسلم نسل کشی کی گئی تب یہ ادارے کہاں تھے ۔جب برما میں انسانوں کو کاٹا گیا تب یہ ادارے کہاں تھے یہ ادارے صرف معربی ممالک کے تحفظات کے لئے ہیں کو شاں نظر آتے ہیں۔
اور ہم نے خوبصورت ایمانی جذبے کو جو ہمارے ایمان کی غیرت ہے تمام دنیاکے سامنے دہشت گردی کی بنیاد بنا کر رکھ دیا ۔ اس میں بھی ہمارے مسلمان حکمرانوں اور ہمارے مذہبی پیش رواؤں کا بڑا ہاتھ ہے ۔وہ عمل وہ جنگ جو ہمارے خلفائے راشدین مظلوم کے حق کے لیے ایمان کی طاقت کی بناء پر کرتے ہم نے اسی عمل کو چند ڈالروں کی نذر کر دیا ہم نے جہاد کو ڈالروں کے عوض بیچ دیا یعنی اپنا ایمان بیچ دیا ۔جس کی بنا ء پر ہمارے وہی مجاہدین دہشت گرد بنا دیئے گئےاور ان کو ختم کرنے کے لئے وہ جنگ شروع ہوئی جس نے بر اعظم ایشا ء میں اگر سب سے زیادہ کسی کو متا ثر کیا ہے تو ہم لوگ ہیں ۔ایک طرف ہماری تاریخ بہادری سے بھری ہے کہ چند سو ہزراوں لاکھوں پر بھی بھاری تھے وجہ صرف یہی جذبہ ایمانی تھا ۔ دوسری طرف ہماری تاریخ غداری سازش اور اقتدار کی ہوس سے بھی اُمنڈی پڑی ہے۔ جس کی وجہ سے صرف زوال ،پستی ،اور بربادی اس اُمت کا نصیب ہوا ۔اپنی اسی خاصیت کی بناء پرہم لیڈر اور محسن مار مشہور ہوئے ۔اور اسی وجہ سے آج پوری دنیا میں ہم اُمت مسلمہ ظلم کا شکار ہورہی ہے۔ اب یہ حال ہے کہ ہماری نسلیں اس غیرت ایمانی جیسے جذبہ کو کھو چکی ہیں ۔صرف ٹک ٹاکرز بن کر رہ گئے ہیں ۔اور اس کانتیجہ یہ بھی نکلا کہ ہم بے حس بے بس اور بزل اُمت بن گئے۔
آج کسی اسلامی ملک کا ہی نام بتا دئے جس نے فلسطین کی لائیو ہونے والی نسل کشی پر کوئی سخت اقدام اُٹھائے ہوں ۔جس نے اسرائیل کی تیل کی رسد روکی ہوں جس نے نہتے فلسطینیوں کو کوئی عسکری مدد فراہم کی ہو۔مجال ہے ہم نے سرکاری سطح پرپاکستان میں کوئی احتجاج کرنے کی اجازت دی ہو مجال ہے ہم نے کوئی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہو مجال ہے ہم نے کوکا کولا یا اسرائیلی بر گرز کھانے چھوڑے ہو۔
یہ محرم کا مہینہ ہے تمام مسلما ن اس مہینے میں کربلا میں ہونے والے ظلم کا افسوس و سوگ مناتے ہیں ۔ لیکن یقین مانیں مجھے یہ سب منافقت لگتی ہے ۔اُس وقت یہ اُمت کہاں تھی جب اکیلا حسین ؑمیدان کربلا میں تھا ۔کہاں تھے اُس وقت کے مذہبی رواں جب ننھے اصغر کو پیاسا شہید کیا گیا ۔جب آل محمدﷺ کے خیمے جلاے گئے سب تو سازش اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھے اپنے تھوڑے تھوڑے لالچ و مفاد کے لئے ان کو کٹتے مرتے دیکھتے رہے۔اُس وقت بھی ہم بے حس اور بے ضمیر تھے اور آج بھی اُتنے ہی ہیں ۔
اور آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے آج فلسطین میں بھی بھوک اور پیاس سے کئی ننھے اصغر مر گئے کئی جوان کاٹ دئے گئے بزرگ خواتین کو کتوں نے چیڑ پھاڑڈالا ۔لاشیں دفنانے کو وہاں کوئی نہیں بچا۔ لیکن یہ اُمت بڑے مزے سے سو رہی ہے ۔ بالکل پہلے کی طرح ہی جب کر بلا کے میدان میں امام حسین ؑ تنہا تھے ۔ کبھی ایک وقت تھا کہ ایک مظلوم کی پکار پر محمد بن قاسم اور ایوبی کے لشکر نکل پڑتے تھے اور اب یہ وقت ہے کہ دلدوز چیخیں جن کو سن کر نیند اُڑ جائے وہ ویڈیوز جن کو دیکھ کر روح کانپ اُٹھے دیکھ کر بھی اس اُمت کو غیرت تک کا پسینہ نہیں آیا ۔ اس اُمت کے حکمران اپنے اپنے مفاد کی جنگوں کو چھوڑ نہیں پائے۔ہم سب اپنی روایات بھول چکےہیں صرف ایک روایت باقی ہیں کہ کیسے کسی کے خلاف سازش کرنی ہے کیسے کسی کو اپنے لالچ اور اقتدار کے لئے بیچنا ہے۔اور ووہم خوب کر رہے ہیں ۔ ہم آج سے چودہ سو سال پہلےوالے کربلا کی صورتحال سے دوچار ہیں ایک طرف یزیدیت ہے اور ظلم ہے دوسری طرف بے سہارا اور بے کس افراد ا اور ہم بعد میں پھر ماتم کرنے والوں میں شامل ہونے والی نسل سے ۔یقین مانے ہم وہ بد قسمت ہیں جو اس لائیو ہونے والی نسل کشی پر اپنی خاموشی کی وجہ سے کبھی نہیں بخشے جائیں گئے ۔ہمارے مذہبی پیش روا بھی ہمارے سیاستدانوں اور دیگر افسرن کی طرح اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ایوبی کے دور میں کئی مذہبی پیش روا پکڑے گئے جو بڑی میٹھی زبان استعمال کرتے ہوئے امن کا درس دیتے تھے ۔جن کا کام صرف مسلمانوں کو تقدیر اور مجزوں کا انتطار کرنا سیکھانا تھا اور تاریخ گواہ ہے ایسے جاسوسوں کو ایوبی نے پکڑ کر قتل کیا ۔ آج میرے نبی ﷺ کی اُمت کو مذہبی ،تعلیمی اور معاشی پسماندگی میں دھکیلنے میں ایسے ہی کردار ذمہ دار ہیں ۔آج یہ اس قد ر خواب غفلت میں پڑے ہیں کہ کہ فلسطین کے ہمسائے بھی اندھے اور گونگے ہو گئے ہیں وہاں انہیں بھوک اور پیاس میں بلکتے ہوئے بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتی انہیں نہتے مسلمان بچوں اور ہسپتالوں پر بمباری کی آواز نہیں آتی ۔انہیں اب کوئی جلتا ہوا فلسطین یا کسی بھی مظلوم کی آہو بکا ء نہیں اُٹھا سکتی۔اب ان مظلوموں کے لئے کہاں سے امام مہدی کو بلائے کہاں سے کوئی ایوبی لائے جو ایسے مظلوموں کی آواز بن سکے جو مفاد پرستوں اور سازشیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکیں۔
ہم مسلمان آج تک غلامی سے نہیں نکل سکے چاہے وہ اپنی ذات کی غلامی ہے یا اپنے مفادات کی غلامی جس کا یہ ثمر یہ ہے کہ سب ہی کہیں نہ کہیں مر رہے ہیں ۔غلامی تو پھر غلامی ہے یہ غلامی ایسی جہالت ہے جس کی کوئی عمر نہیں ہے نہ اسکی آنکھیں ہیں اور نہ کان یہ صرف نسل کشی کرتی اور کرواتی ہے کیونکہ انسان اور انسانیت کی ذات کی نفی کا نام ہی غلامی ہے۔ ہم مسلم ممالک چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہیں صرف آقا بدلتے ہیں یا پھر ہماری زنجیریں بدلتی ہیں ان کو توڑنے والے ہاتھ ہم کھو چکے ہیں یا پھر ہمیں وہ ہاتھ دکھائی ہی نہیں دیتے کیونکہ ہم تو بڑے مزے سے گہری نیند سو رہے ہیں۔