محرم الحرام ہجری یا اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور اللہ کے بتائے ہوے مقدس چارمہینوں میں سے ایک ہے۔نبی کریم محمد مصطفیﷺ نے محرم کو شہر اللہ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے (مسلم)۔ یہ واحد مہینہ جسے اللہ کا مہینہ کہا جاتا ہے۔”بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے ہاں بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اسلامی تقویم اور سنِ ہجری میں ”محرم الحرام“کو بنیادی عظمت و اہمیت حاصل ہے،اسلام میں جن مہینوں کو عظمت و حرمت اورعزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،ان میں محرم الحرام ایک عظیم مہینہ ہے۔یہی وہ مہینہ ہے جو تقویم اسلامی اور سنِ ہجری کا نقطہ آغاز ہے۔سال میں کچھ دن ایسے ہیں جو دوسروں سے زیادہ فضیلت والے ہیں۔ ایسا ہی ایک دن 10 محرم الحرام کا دن ہے جسے یوم عاشورہ کہا جاتا ہے۔ اس دن نواسہ ءرسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی۔ اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
اعلائے کلمة اللہ جرآت واستقامت اور جس موقف کوحق سمجھتے تھے اس کے لیے ہر مخالف کے ساتھ ٹکراجانا ایک ایسا کردار ہے جس نے تاریخ، کربلا، امت مسلمہ اور ایمانی جذبوں کوزندہ جاوید کردیا۔ ان قربانیوں کاسب سے بڑا سبق ایک عظیم مقصد کے لیے ذاتی جذبات وخواہشات اور مفادات کی قربانی دینا ہے۔کربلا کا معرکہ 10 محرم 61 ہجری (9/10 اکتوبر 680 عیسوی) کو کربلا میں دریائے فرات کے قریب اس علاقے میں پیش آیا جسے اب عراق کہا جاتا ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کے آغاز اور خودآسمان و زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق ایک سال میں بارہ مہینے ہی ہوا کرتے تھے اوران بارہ مہینوں میں چار مہینے ایسے ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل عہد جاہلیت کے عرب کفار مکہ بھی ان کی حرمت اور احترام کے قائل تھے۔چناں چہ وہ اپنی جاری جنگوں کو بھی ان مہینوں میں موقوف کردیا کرتے تھے۔ان چار مقدس مہینوں کے اندر محرم الحرام کا مہینہ بھی شامل ہے او رحسن اتفاق سے اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہی محرم الحرام کہلاتا ہے۔تاریخ انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اسلام سے قبل اس مہینے کے اندر بہت سارے اہم واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں نے اس مہینے میں پائے جانے والے جن واقعات کو محفوظ کیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
اس مہینے میںاللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے رہائی حاصل ہوئی۔حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفا نصیب ہوئی۔حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بحیرہ قلزم میں غرق کردیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ۔ مندرجہ بالا تمام واقعات کا تعلق دین اسلام کی آمد سے قبل سے ہے اور تاریخی کتابوں سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ تمام واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ جسے عاشوراءیا عاشورہ محرم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کو پیش آئے تھے۔
اسلام کی آمد کے بعد بھی بعض اہم واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو پیش آئے ،جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اسی روز (یعنی دس محرم الحرام کو) اہلِ مکہ، خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔(بخاری ومسلم)۔جب کہ اس مہینے کے آغاز میں سیدنا عمر فاروقؓ پر قاتلانہ حملہ تو 28 ذی الحجہ کو ہوا تھا، لیکن شہادت یکم محرم الحرام کو ہوئی۔ دس محرم الحرام کی تاریخ وہ ہے جس میں نواسہ رسول ،سیدنا حضرت حسینؓ شہادت کے مرتبے پر فائزہوئے۔ قیامت کا وقوع بھی دس محرم الحرام اور جمعہ کے دن ہوگا۔عاشوراءمحرم، محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا نام ہے اور محرم الحرام کے پورے مہینے میں جو تقدیس آئی ہے وہ اس تاریخ اور دن کی وجہ سے ہے اور اسے مقدس جانتے ہوئے گزشتہ آسمانی مذاہب سے تعلق رکھنے والی قومیں بطور شکرانہ اس کا روزہ رکھتی رہی ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے شریعت اسلامیہ میں بھی بطور فرض عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی، لیکن عاشورہ کے دن کی تقدیس برقرار ہے۔ چناںچہ یہ فرمادیا گیا کہ اب جس کا دل چاہے، اس دن کاروزہ رکھے اور جس کا دل چاہے، اسے ترک کردے۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد نبیﷺ کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ مدینہ منورہ کے یہودی عاشورہ محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے، جب ان یہودیوں سے اس روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ بات بتائی کہ ہمیں فرعون سے نجات اسی دن حاصل ہوئی تھی۔اللہتعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھا کرتے ہیں۔تاریخ اسلام کا دوسرا اہم ترین واقعہ 10محرم الحرام کوسیدنا حضرت حسین ابن علی ؓ کی شہادت کا ہے۔ یہ ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی کسک (ٹِیس) ہر مومن کے دل میں ہر اس موقع پر اٹھتی رہے گی، جب جب یہ واقعہ اس کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے گا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ 3شعبان بروز جمعرات کو اس دنیا میں ایسے گھرانے میں جلوہ افروز ہوئے جس گھرانے کے لیئے اس دنیا کا وجود عمل میں لایا گیا یعنی ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی پیاری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرا ؓ اور حضرت علی ؓ کے گھر مدینہ میں ہجرت کے چوتھے سال پیدا ہوئے۔ حضرت امام حسینؓ اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسنؓ سے ایک سال چھوٹے تھے۔ آپ نے کم و بیش (روایات کے مختلف ہونے کی وجہ سے ) حیات نبوی کے کئی سال دیکھے۔ یہ ان کی صحابیت کی ایک مضبوط دلیل اور علامت ہے۔ آپ کا جسم پاک رسول اللہﷺ کے جسداطہر کے مشابہ تھا۔ آپ اپنے بھائی کے ساتھ بچپن میں نبی اکرمﷺ کے سینہ مبارک پر سوار ہوکر کھیلا کرتے تھے اور ان سے محبت کا اظہار فرماتے ہوئے نبی اکرمﷺ نے فرمایا : یہ دونوں (حسنؓ و حسینؓ) دنیا میں میرے پھول ہیں۔(طبرانی فی المعجم) نیز رسول اللہ کا یہ ارشاد مبارک حدیث کی کتابوں میں جگمگاتا ہوا ہمیں ملتا ہے اور حسنؓ و حسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔
حضرت امیرمعاویہ کے بعد یزید نے مسند اقتدار سنبھال لیا تھا اور مسلمانوں سے اپنی خلافت کے حق میں خود اور اپنے کارندوں کے ذریعے بیعت لینا شروع کردی تھی سیدنا حسین ؓ سے بھی مطالبہ کیا گیا لیکن چونکہ یزید کی بیعت خلافت نہیں،بلکہ ملوکیت تھی۔ حضرت حسین ؓ نے بیعت سے سختی سے انکار فرمایا۔ تاریخی روایات کے مطابق بیعت نہ کرنے والے صحابہؓ سے یزید کے کارندوں نے بدسلوکی کا مظاہرہ کیا۔ سیدنا حسینؓ یزید کے ظلم سے عوام الناس کو بچانے اوردین کی سربلندی کی غرض سے کربلا کی طرف آئے تھے۔امام حسین ؓ نے حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے کس طرح فسق و فجور کا مقابلہ کیا اور اپنے تمام رفقاءکی قربانی دے دی اور اپنے بچوں تک کو قربان کر دیا لیکن حق اور سچ پر قائم رہتے ہو ئے اپنی بھی جان اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردی اور شہادت کا وہ رتبہ و مرتبہ حاصل کیا کہ تا قیامت ان کی شہادت کو بھلایا نہ جا سکے گا اور ان کی شان بیان کی جاتی رہے گی ۔
ناز جس پر کائنات کی ہر نماز کو تھا
وہ سجدہ پھر نہ دیکھا گیا حسینؓ کے بعد