حکومت نے ساڑھے 3 ہزار ارب ٹیکس لگانے کی وجہ بتا دی
اگلے 3 سے 4 سال میں 100 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضرورت
حکومت نے ساڑھے 3 ہزار ارب ٹیکس لگانے کی وجہ بتا دی
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ بجٹ 2024 آئی ایم ایف کے ساتھ ملا کر بنایا اس لئے ان کی شرائط ماننا پڑیں۔ ہمیں عوام کی تکلیف کا احساس ہے ،حکومت کے لئے بھی ساڑھے 3 ہزار ارب ٹیکس لگانے آسان فیصلہ نہیں تھا۔
نجی ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ کوئی شک نہیں یہ مشکل بجٹ تھا، ہمیں عوام کی تکلیف کا احساس ہے مگر حکومت کےلیے بھی یہ آسان فیصلہ نہیں تھا۔
حالیہ بجٹ تاریخ کا بدترین بجٹ ہے: سابق وزیراعظم یہ بھی پڑھیں
انہوں نے کہا کہ بجٹ آئی ایم ایف کی شراکت داری کے ساتھ بنانا تھا، ہمیں ان کے ساڑھے 3 ہزار ارب روپے کے ٹیکس کے مطالبے کو پورا کرنا پڑا، اگلے 3 سے 4 سال میں 100 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ چند مہینوں میں ملک میں استحکام آیا اور مہنگائی پرقابو پالیا گیا ہے، وزیراعظم سے لے کرکابینہ ممبران تک نہ کوئی تنخواہ لیتا ہے اور نہ مراعات لیتا ہے، 30 سے 40 غیر ضروری محکموں کو بند کیا جائے گا، جن وزارتوں کی ضرورت نہیں انہیں صوبوں سے مل کر ختم کیا جارہا ہے جب کہ نجکاری کا پروگرام بھی تیزی سے جاری ہے۔
علی پرویز نے مزید کہا کہ 3500 ارب کے ٹیکس میں سے 70 ارب کے ایڈیشنل ٹیکس تنخواہ دار طبقے پر ہیں، شہدا کی فیملی، جنگ کے دوران زخمی ہونے والوں، نوکری کے دوران انتقال کرجانے والوں، فوجی اور سول افسران کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والے ایک پلاٹ پر ٹیکس میں چھوٹ دی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے 50 یونٹ استعمال کرنے والوں کےلیے قیمت برقرار رکھی ہے جب کہ 200 یونٹ استعمال پر بھی قیمت 15 روپے فی یونٹ برقرار رکھی ہے۔