بارٹر سسٹم سے پیسے تک ارتقاء
دنیا کی تاریخ میں پیسے کا وجود ایک حیران کن اور انقلابی تبدیلی کا باعث بنا ہے
بارٹر سسٹم سے پیسے تک ارتقاء
میاں کامران
دنیا کی تاریخ میں پیسے کا وجود ایک حیران کن اور انقلابی تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ آج ہم اپنی روزمرہ زندگی میں پیسوں کا استعمال اس قدر معمولی سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ آخر پیسہ وجود میں کیسے آیا؟ لیکن اگر ہم ذرا ماضی میں جھانکیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں پیسہ وجود میں نہیں تھا، اور لین دین کا نظام ایک مختلف شکل میں تھا جسے ’’بارٹر سسٹم‘‘ کہا جاتا تھا۔
بارٹر سسٹم انسان کی ابتدائی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا، جہاں اشیاء اور اجناس کا تبادلہ براہ راست کیا جاتا تھا۔ یعنی اگر کسی کے پاس گندم ہے اور اسے بکری چاہیے، تو وہ تب تک بکری نہیں لے سکتا تھا جب تک وہ ایسا شخص نہ ڈھونڈے جسے گندم درکار ہو اور بکری اس کے پاس موجود ہو۔ یہ عمل بظاہر آسان لگتا ہے، مگر حقیقت میں اس میں بے پناہ مشکلات پیش آتی تھیں۔ اگر کسی کو بکری چاہیے لیکن بکری والے کو گندم کے بجائے کوئی اور چیز مثلاً خنجر درکار ہو، تو پھر گندم والے کو پہلے خنجر تلاش کرنا پڑتا تاکہ وہ اس خنجر کو بکری والے کے ساتھ تبادلے میں دے سکے۔ اس پیچیدگی نے بارٹر سسٹم کو ایک غیر موثر طریقہ بنا دیا۔
یہ نظام اگرچہ ابتدائی تہذیبوں میں ایک مدت تک جاری رہا، لیکن اس کی عملی صورت میں کئی خامیاں موجود تھیں۔ سب سے پہلی مشکل یہ تھی کہ کسی بھی چیز کی قیمت اور قدر کا تعین کرنا نہایت مشکل ہوتا تھا۔ مثلاً، ایک بکری کی قیمت کتنے خنجر یا کتنی گندم ہوگی؟ دونوں فریقین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہونا ضروری تھا، ورنہ یہ معاملہ طویل بحث و مباحثے کی نذر ہو سکتا تھا۔
مزید برآں بارٹر سسٹم میں اشیاء کے نا قابل تقسیم ہونے کا مسئلہ بھی تھا۔ اگر ایک شخص کے پاس بڑا گائے یا اونٹ ہے اور اسے صرف کچھ اناج چاہیے تو وہ اس بڑے جانور کو کیسے تقسیم کرے؟ یہ صورتحال اکثر تبادلے کو مشکل بنا دیتی تھی اور کئی دفعہ ضرورت کے مقابلے میں زیادہ چیز دینا پڑتی تھی۔ نیز، ہر فرد کی ضروریات ایک جیسی نہیں ہوتی تھیں، اور اکثر ایسا ہوتا کہ جس چیز کی ضرورت ہوتی، وہ عین وقت پر دستیاب نہ ہوتی۔ یوں اس پیچیدہ نظام میں لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت اور محنت صرف کرنی پڑتی تھی۔
اس تمام تر پس منظر میں، انسان نے یہ سمجھا کہ ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو زیادہ آسان اور موثر ہو۔ چنانچہ، پیسے کا تصور سامنے آیا۔ پیسہ ایک ایسی ایجاد ہے جس نے معیشت کے تمام پہلوؤں میں انقلاب برپا کر دیا۔ پیسے نے وہ کردار ادا کیا جو بارٹر سسٹم نہ کر سکا۔ اب نہ صرف اشیاء کی قیمت کا تعین آسان ہو گیا، بلکہ تبادلہ بھی زیادہ تیزی اور اعتماد کے ساتھ ہونے لگا۔
مختلف تہذیبوں میں پیسے کی ابتدائی شکلیں مختلف تھیں۔ قدیم مصری تہذیب میں سونے اور چاندی کو بطور پیسہ استعمال کیا جاتا تھا۔ چین میں کوڑیوں اور دھاتی سکوں کا رواج تھا، جب کہ بابل میں لوگ چاندی کے وزن کے حساب سے لین دین کرتے تھے۔ ہر تہذیب نے اپنے مخصوص وسائل اور معاشرتی ضروریات کے مطابق پیسے کی کوئی نہ کوئی شکل اپنائی۔
پیسے کی ایک اور بڑی افادیت یہ تھی کہ اس نے ذخیرہ اندوزی اور سرمایہ کاری کو ممکن بنایا۔ بارٹر سسٹم میں اجناس اور اشیاء زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکتی تھیں، مثلاً کھانے پینے کی اشیاء خراب ہو جاتی تھیں، مگر پیسہ ایک ایسی چیز تھی جو دیر تک محفوظ رہ سکتی تھی اور اس کے ذریعے لوگ اپنی محنت کے بدلے میں حاصل کی گئی دولت کو محفوظ کر سکتے تھے۔
اس کے علاوہ، پیسے نے عالمی تجارت کو بھی فروغ دیا۔ بارٹر سسٹم میں مختلف علاقوں کے درمیان لین دین بہت محدود تھا، کیونکہ ایک علاقے کی ضروریات اور پیداوار دوسرے علاقے سے مختلف ہوتی تھیں، اور اشیاء کا تبادلہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا تھا۔ پیسے کی ایجاد نے ان تمام رکاوٹوں کو دور کر دیا اور لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر تجارت کرنے کی سہولت فراہم کی۔
یوں پیسے نے نہ صرف معیشت کو فروغ دیا بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا۔ آج، پیسہ نہ صرف اشیاء اور خدمات کی قیمت کا تعین کرتا ہے بلکہ یہ قوموں کی طاقت اور ترقی کا پیمانہ بھی بن چکا ہے۔ پیسہ ایک ایسی مشترکہ زبان بن چکا ہے جسے ہر کوئی سمجھتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا شخص کسی دوسرے کونے کے ساتھ لین دین کر سکتا ہے۔
بارٹر سسٹم نے انسان کی ابتدائی معاشرتی اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اس کی محدودیتوں اور پیچیدگیوں نے بالآخر پیسے کے نظام کو جنم دیا۔ آج، ہم جس جدید دنیا میں جی رہے ہیں، اس کی بنیادوں میں پیسہ ہی کا کردار نمایاں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پیسہ ایک ایسا آلہ ہے جس نے انسان کی زندگی کو آسان اور موثر بنا دیا ہے، اور جس نے عالمی معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھا ہوا ہے۔
پیسہ، جس نے نہ صرف لین دین کو آسان بنایا بلکہ دنیا کو ایک مشترکہ اقتصادی نظام کے تحت جوڑ دیا، انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایجادوں میں سے ایک ہے۔